ڈیرہ غازی خان ( شبیر سدوزئی ) تاریخی ورثہ اور خوبصورتی کے لحاظ سے کسی شہر سے کم نہیں، گذشتہ ہفتے پرانی عمارات و تاریخِ ورثہ کی حفاظت و خوبصورتی کے ماہر، ملک کی نامور شخصیت ڈائریکٹر جنرل لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کامران خان لاشاری نے ڈائریکٹر کنزرویشن لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نجم ثاقب کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان کا تین روزہ دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے شہر کی تاریخی عمارات و دیگر ورثہ کا جائزہ لیا، شہر کی تاریخی عمارات کے ماہر پروفیسر شعیب رضا نے انہیں شہر کے قابل دید تاریخی عمارات کی سیر کروائی، معزز مہمانان کو بانی شہر غازی خان میرانی اول کے مقبرہ کی سیر کروائی گئی، یہ مقبرہ ۱۴۹۹ میں تعمیر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی چھت گر گئی تھی جسے انگریز دور میں دوبارہ بنایا گیا، قیام پاکستان کے بعد یہ مقبرہ محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں ہے اور گذشتہ عشرے دوران اس کی بہترین تزئین و آرائش کی گئی تھی۔
یہ ملاں قاعد شاہ قبرستان میں واقع ہے جہاں بہت سی تاریخی شخصیات بھی مدفون ہیں، کامران لاشاری صاحب نے اس مقبرے کی ہشت پہلو بناوٹ اور اندرونی ساخت میں دلچسپی لی۔ کامران لاشاری صاحب کوکمشنر ڈیرہ غازی خان لیاقت چھٹہ صاحب کے ہمراہ غازی گھاٹ کے دورہ کے دوران انگریز دور کا کم پانی والا جہاز بھی دکھایا گیا، پروفیسر شعیب رضا نے بتایا کہ وہ جہاز گذشتہ چار عشرے سے وہاں پڑا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تباہ ہورہا ہے، اگر اس تاریخی ورثہ کو یہاں سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے تو اس کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ کامران لاشاری صاحب نے تجویز دی کہ اگر اس جہاز کو نئی پیالہ جھیل والی جگہ پر لاکر محفوظ کیا جائے تو اس جگہ کی خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوسکتاہے، شہر ڈیرہ غازی کے وسطی بلاک میں موجود انگریز دور کے تعمیر کردہ قسمانی محل کا بھی دورہ کروایا گیا، یہ چھوٹی لیکن پر کشش عمارت برمنگھم پیلس کے نقشہ سے متائثر ہوکر ۱۹۳۰ کی دہائی کے اوائل میں مسلم بخش قسمانی نے تعمیر کروائی تھی، یہ عمارت کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث خراب حالت میں ہے، اگر اس عمارت کی حفاظت کی جائے تو یہ قیمتی ورثہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے،پروفیسر شعیب رضا نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل ہندووں کی کثیر تعداد ڈیرہ غازی خان میں رہتی تھی
جو پاکستان بننے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے، ان کے باقی ماندہ ورثہ میں کافی پرانے مکانات، ان کے اوپر تاریخی پلیٹیں اور مندر آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں، شہر کے وسط میں موجود ہنو مان مندر کو بھی دیکھا جس کے اوپر ابھی بھی اس دور کی شبیہات موجود ہیں، اس طرح سو سال قبل کا تعمیر کردہ ہندو ہائی سکول اپنی اصل عمارت کے ساتھ آج بھی موجود ہے، اس سکول میں ایک ہندو خاندان کی طرف سے عطیہ کردہ پینے کے پانی کی ایک ٹینکی آج بھی موجود ہے جس پر ایک یادگاری پلیٹ نصب ہے جس میں اس ہندو کے خاندان کے ۱۷ افراد کے نام درج ہیں جو ۱۹۳۵ کے کوئٹہ زلزلہ کے نتیجہ میں ابدی نیند سو گئے تھے۔ اس سکول کا اس وقت کے انگریز گورنرسر مونٹگمری نے افتتاح کیا تھا۔
ڈائریکٹر جنرل لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نے ڈیرہ غازی خان کے تاریخی ورثہ کی بہت تعریف کی اوراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ غازی خان تاریخی ورثہ کے حوالے سے پنجاب کے کسی شہر سے کم نہیں۔ اگر مناسب توجہ دی جائے اور موجود شدہ ورثہ کی حفاظت کی جائے اور اس کی خوبصورتی میں اضافی کیا جائے تو اس علاقے کی سیاحت کو مزید فروغ مل سکتا ہے۔ اپنے دورہ کے دوران کامران لاشاری صاحب نے تونسہ اور فورٹ منرو بھی دیکھا، انہوں نے تونسہ کے بازار اور شہر کی گلیوں کو کافی منظم پایا، فورٹ منرو کی خوبصورتی میں اضافہ کے لیے انہوں نے ڈویژنل ایڈمنسٹریشن کو مشاورت دی۔