کشمیر نَوَرْدی۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ممتاز صادق صاحب

تحریر : حماد خان سدوزئ
Hammadkhansadozai313@gmail .com

آسان نہیں ہے دشت نوردی کچھ اے نسیم
دن بھر ہے دھوپ ،خار ِمُغِیلاں تمام رات

ڈاکٹر ممتاز صادق صاحب سے میری پہلی ملاقات غالبا 1994ء میں ہوئی جب میرے بڑے بھائی کی دعوت پر وہ پروفیسر اشفاق صاحب اور پروفیسر چودھری بشیر صاحب کے ہمراہ ہمارے گھر دیوی گلی، دھنی (تفریحی مقام) تشریف لائے اس وقت میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور کالج میں داخلہ کا خواہاں تھا۔ پروفیسر اشفاق صاحب نے جو خود شعبہ ریاضی کے قابل استاد تھے مجھے شعبہ ریاضی میں داخلہ کا مشورہ دیا لیکن ریاضی سے تو میرا پہلے دن سے ہی خدا واسطے کا بیر تھا۔ پروفیسر ممتاز صادق صاحب کی چشم بینا نےمیری اس ذہنی کیفیت کو بھانپ لیا اور اشفاق صاحب کو بولا کہ بچے کی خواہش بھی تو پوچھی جائے۔ میرا رجحان تو ایل ایل بی کی طرف تھا اس لیے آرٹس کے مضامین میرے لیےبہترین چوائس تھی۔ ممتاز صادق صاحب کی یہ ملاقات ان سے دائمی قلبی تعلق کا پہلا سبب بنی۔
ممتاز صادق صاحب سے دوسرا قلبی تعلق اس وقت قائم ہوا جب میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج ھجیرہ میں داخلہ لیا اور یہ اسی کالج میں شعبہ اردو کے نہ صرف قابل استاد تھے بلکہ انتہائی نفیس ، سمارٹ، بزلہ سنج، درازقد، خوش اخلاق و خوش پوش، کلاس میں بلا کا کنٹرول رکھنے والے ، سمجھانے کا بہترین انداز اور اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت بھی۔۔ یہ سب اوصاف یقیناً ممتاز صاحب کو سب میں ممتاز کرتےہیں۔ ہم سب کلاس فیلو استازی کا دل سے احترام کرتے ہیں ۔
جون2019ء میں اپنے چچا (مرحوم) کی عیادت کیلئے CMH راولا کوٹ گیا تو میں نے اپنے کزن امتیاز قمر کے ہمراہ (جو ممتاز صادق کے شاگردوں میں سے ہیں)۔ راولاکوٹ پوسٹ گریجویٹ بوائز کالج میں ممتاز صادق صاحب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔یہ ملاقات غالباً 15 سال کے بعد ہو رہی تھی۔استاد محترم کو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ نئے پاکستان میں جہاں ہر شخص "تبدیلی” سے متاثر ہوا مجال ہے ممتاز صادق صاحب نے کوئی رتی برابرسونامی کا اثر لیا ہو۔۔۔۔ وہی جسامت، وہی اندازتخاطب، حس و مزاح اور سب سے بڑھ کر گرم جوشی اور اپنا پن۔۔۔۔۔بڑی محبت سے پیش آئے وہاں ہمارے ایک اور استاد محترم پروفیسر سعید صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی۔ جو مذکورہ پوسٹ گریجو یٹ کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز صاحب نے اپنی لکھی ہوئی کتاب”کشمیر نما "پڑھنے کیلئے عنایت کی جو مصروفیت کے باعث پڑھنے میں دیر لگی۔ اسی افتاد طبع کے باعث ہمارا ایک کالج فیلو سردار معروف خان صاحب(سنیئر جر نلسٹ)اکثر طعنہ دیا کرتے تھے کہ تم "کتاب دوست اور علم دشمن آدمی ہو تمہیں کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے پڑھنے کا نہیں”۔ ان کی بات میں تو سچائی تھی۔ لیکن استاد محترم کی لکھی ہوئی کتا ب کے ساتھ اسطرح کا سلوک مناسب نہیں تھا۔چنانچہ "کشمیر نما” پڑھنا شروع کی تو انتہائی جاذب نظر معلوم ہوئی اور ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ کتا ب کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ قاری کو خود ماضی کا لطف اٹھانے پرمجبور کرتی ہے۔اس کتاب میں کشمیر کا تمدن بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، کتاب میں مصنف نے بڑی باریک بینی سے ماضی کی یادوں کو اور پہاڑی کلچروزبان (جو اب ناپید ہوتی جارہی ہے)۔ کو خوبصورت انداز میں پیش کیا اورنئی نسل کے لیے مصنف کے درد کی کیفیت واضح طور پر کتاب میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ۔۔۔ کتاب میں بچوں کےوالدین سے کچھ کچھ شِکوہ سَنْجی بھی ۔۔۔۔اس شکوہ کا اظہار ان الفاظ میں کرتےہیں۔
"والدین بچوں کو اسکول بھیج کر اپنا فرض ادا سمجھتے ہیں بچوں کی خبر گیری کا تصور ابھی کشمیر ی دیہات کا حصہ نہیں بن سکا ۔ یہ لوگ اپنے جانوروں کی تھوڑی دیر کے لیے بھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتے ۔ لیکن بچہ شام تک سکول سے لوٹ کر نہ آئے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی”۔
انہوں نے ناصرف موجودہ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ کشمیر ی وسائل کو ضائع ہونے پر ماتم کُناں بھی نظر آئے کتا ب میں مصنف کی بزلہ سنجی (wittiness) نہ صر ف کتاب کے حسن کو دوبا لاہ کرتی ہے بلکہ ہمارے لیے سبق آموز بھی ۔۔۔۔لکھتے ہیں۔
"پروفیسر صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کا ایک بیل اس عادتِ بد میں مبتلا تھا کہ ہر وقت اپنی لمبی، گھنی، دُم پلیدمائع میں لتھڑے رکھتا تھا جو نہی کوئی انسان اس کے قریب سے گزرتا ، یہ پوری قوت اور پھرتی سے دُم جھٹک کر اسکے بے داغ لباس کو داغ دار اور پلید کردیتا تھا ۔پروفیسر بضد ہیں۔۔ کچھ لوگوں کا وتیرہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ کام لیتے ہیں جو ان کا بیل دُم سے لیتا تھا۔ یعنی جھوٹ، غیبت الزام تراشی، بہتان سے دوسروں کا اجلا لباس پلید اور داغ دار کرتے ہیں۔ بس فرق یہ ہےکہ ایک کی چار ٹانگیں ہیں اور دوسرے کی دوٹانگیں ہیں۔ ایک گھاس کھاتا ہے اوردوسرا روٹی ، کام دونوں کے ایک ہیں۔ ایک یہ کام دُم سے لیتا ہے دوسرا زبان سے ۔۔۔”
راولا کوٹ شہر میں تاجروں کے معاشرتی رویے کو دلچسپ پیرائے میں یوں بیان کیا۔
"کپڑے کے تاجر بڑے بڑے گاہک کو دوسرا تھان تب تک نہیں دکھاتے جب تک وہ پہلے تھان سے کچھ کپڑا خرید نہ لیں۔ کوئی اڑیل گاہک دوکاندار کے دھونس کے باوجود پہلے تھان سے کچھ خریدنے پر راضی نہ ہوتو ” دروغ برگردن راوی” سنا گیا ہےکہ بالعموم دکاندار کا یہ طعنہ یا شکوہ ضرور سننے کو ملتا تھا۔ ” ہننا نیسے تے پیو کھولایا کیاں سے ؟” میں جان بوجھ کر اس پہاڑی جملے کا ترجمہ نہیں لکھ رہا تاکہ گھر کی بات گھر میں رہے” ۔
استاد محترم نے اپنی کتاب میں اہل راولا کوٹ کی مشہورچھیڑ جس سے وہ اکثر چڑتے ہیں "One for me, one for Tea” کی تفصیلی وضاحت کی اور اس جملے معترضہ کو صرف مہدی خان کی شخصی کارروائ قرار دے دیا۔اس طرع اہل رولا کوٹ پر دانستہ احسان بھی کردیا جس کے لیے اہل راولا کوٹ کو ان کا شکر گزار رہنا چاہیئے ۔ چونکہ "کشمیر نما "نے ان کو اب تاریخی Indemnity مہیا کردی ہے۔راولا کوٹ میں طنزومزاح صرف ممتاز صادق صاحب تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی باز گشت حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ بانی کشمیر سردار ابراہیم خان بھی حددرجہ بذلہ سنج تھے اس کے علاوہ سابق صدر و وزیر اعظم سردار یعقوب خان پہلی دفعہ سردار عتیق خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے وزیر اعظم کی سیٹ پر براجمان ہوئے تو ایک TV پروگرام میں سردار عتیق احمد کے خلاف اندرونی سازشوں کے حوالے سے اینکر نے سوال پوچھا تو سردار یعقوب صاحب نے پہاڑی زبان میں سردار عتیق کیلئے کہا ۔۔۔۔۔
"اس ہٹھّا ھڑ لنگی یاں دے اس کی بعد وچ پتا لغا”۔اینکر نے فوراً پوچھا اس فقرے کا مفہوم کیا ہے سردار یعقوب نے کہا کہ گھر کی بات گھر میں رہنے دو میں نے یہ جملہ جس کے لیے بولا ہے اس کو سمجھ آگئی ہے”۔
بلاشبہ "کشمیر نما” آنے والی نسلوں کے لیے ایک علمی و تاریخی ورثہ ہے۔
استاد محترم آجکل علیل ھیں
دعا ہےکہ استاد محترم کی زندگی میں رب العزت برکت عطا فرمائے تاکہ وہ علمی موتی کو صفحہ قرطاس پر یوں ہی بکھیر تے رہیں۔

Read Previous

محمد حنیف پتافی شہر کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں

Read Next

افغان حکومت، طالبان کے درمیان سنجیدہ مذاکرات ہی افغان مسئلے کا حل ہے: نڈ پرائس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے