ملتان ( رانا سہیل ) مسلمان کے قول و فعل سے مخلوق کو فائدہ ملنا چاہیے۔اچھائی کرتے ہوئے بھی یہ خیال رکھیں کہ میری نیکی سے دوسرے کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی۔اگر کوئی گناہ کو گناہ سمجھ کر کرے گا تو ممکن ہے کہ اسے توبہ نصیب ہو جائے اور اگر کوئی گناہ کو ثواب سمجھ کر کرتا رہے گا عبادت سمجھ کر کرتا رہے گا تو اس سے توبہ کی توفیق بھی سلب ہو جاتی ہے۔دین اسلام کے ظاہری طور پر ماننے کے ساتھ ساتھ دل کی تصدیق بھی ضروری ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ و سربراہ تنظیم الاخوان پاکستان جمعتہ المبارک کے موقع پر خطاب انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹا،عہد توڑنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا پکا منافق ہے۔نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے ملتا ہے کہ جس میں یہ تین عادات پائی گئیں وہ پکا منافق ہے ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ان میں سے کوئی عادت تو نہیں جب ہم بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اگر کسی سے وعدہ کریں تو کیا اسے پورا کرتے ہیں اور کسی کی امانت میں خیانت تو نہیں کر رہے انہوں نے مزید کہا کہ کلمہ طیبہ ایسا انعام ہے،ایسا رشتہ ہے،ایسا اللہ کریم سے وعدہ ہے اس میں جتنی کوئی خیانت کرے گا اس کے معاملات اتنے خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ساری خرابیاں دین اسلام سے دوری کی وجہ سے ہیں۔کسی بھی معاشرے کی اعلی اخلاقی قدریں اگر ان کا جائزہ لیں تو وہ دین اسلام کے اصولوں پر مبنی ہیں۔شجرو ہجر آپ ﷺ پر درود و سلام پیش کرتے لیکن جس مخلوق کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا،کلام ذاتی نازل فرمایا گیا یہ کتنی بڑی عطا ہے۔اگر اس کے باوجود کوئی ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس نے بہت بڑا اپنا نقصان کیا اس نے جیسے تجارت میں نقصان ہوتا ہے اس سے بھی بڑھ کر کہ اصل بھی گنوا بیٹھایعنی ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی۔قرآن کریم ایسے لوگوں کی مثال یوں بیان فرماتے ہیں کہ جیسے کسی کو روشنی عطا ہو اور پھر وہ سلب کر لی جائے تو پہلے سے بھی زیادہ اندھیرا محسوس ہوتا ہے ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی پسند کی۔حق کا اختیار کرنا دنیا و آخرت میں فائدہ کا سبب ہوتاہے راحت کا سبب ہوتاہے حق کا چھوڑنا حق کے مقابل آنے کے مترادف ہے جس سے دنیا و آخرت میں تکلیف ہو گی۔اللہ کریم ہمیں حق اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔