آج معاشرہ سسک رہاہےتومہنگائی کاذمہ دارکون__ہے

تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کو تمدن کی سبھی جھوٹی دلیلوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے

تحریر؛ ڈاکٹرمحمودشیخ

معاشروں میں مزاحمت ختم ہو جائے تو پھر جابرانہ و ظالمانہ اقدامات محنت طبقات کا مقدر بن جاتے ہیں بجٹ کے بعد مسلسل مہنگائی کا رواں سیلاب ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تبدیلی سرکار نے 30 جون 2021 کو 2 روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا کہ ابھی 15 روز ہی گزرے کہ پھر 5 روپے 40 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے بجٹ کے بعد منی بجٹ آنے کی یہ روش کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا لیکن موجودہ حکومت نے ماضی کو نہ دہرانے کا عزم لے کر "دو نہیں ایک پاکستان” کی بات کی تھی اس لئے اس پر تنقید کرنا اہل علم و دانش کا عین فرض ہے جہاں معشیت کے ارسطو آنے کے بعد بھی عوام ریلیف کے ہی طلب گار ہیں مگر ریلیف مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے حالیہ تین برسوں میں عام آدمی نے ریلیف ملنا تو درکنار ریلیف کے کسی جھونکے کو بھی عوام ترس رہے ہیں مہنگائی کی حالیہ صورتحال ماضی سے بھی کہیں زیادہ گھمبیر ہے آخر کیوں۔؟
ابھی پٹرولیم مصنوعات میں اضافے ہی کی بازگشت ہورہی تھی کہ یکدم حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پر بنیادی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اضافے کا بھی نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جسکے مطابق چینی میں 17 روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے اور گھی کی قیمت میں فی کلو 90 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے عیدالضحی کی آمد کا اعلان ہوتے ہی اوپن مارکیٹ میں مہنگائی کا وہ ایسا بےہودہ سیلاب برپا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ ہو گیا مارکیٹس میں جہاں اشیاء خورد و نوش کی قمیتں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں وہاں پھلوں اور سبزیوں سمیت دودھ دیہی کی قیمتوں میں بھی بدترین اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اگر ہم اداروں کی کارکردگی پر غور کریں تو موجود دور میں حکومتی ادارے بظاہرہ منہگائی کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ایک طرف کررونا لاک ڈوان کے باعث ملک بھر میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب کمر توڑ مہنگائی نے بھی عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا اس کے علاوہ روزگار کا حصول بھی پاکستان جیسے ملک میں دشوار ہوا مقامی سطح پر حکومتی اداروں کے جاری نرخ ناموں کو ہر جگہ ہر مقام پر ہوا میں اڑا جاتا ہے اس کی مثال دودھ میں 20 سے40 روپے کا اضافہ ہے کہ 80 روپے سے 120روپے کلو فروخت ہو رہی ہے چینی کنٹرول سے باہر ہے، آٹا بدترین مہنگا، جبکہ پھلوں اور سبزیوں پر غور کریں تو” آلو، ٹماٹر، بھنڈی، پیاز، لہسن، ادرک، کے علاوہ پھلوں میں آلو بخارا، خوبانی، فالسے، جامن و دیگر موسمی پھل عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نظر آتے ہیں کجھور کی قمیتں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے گرم مصالحے بھی عام آدمی کے تصور خرید سے باہر ہیں یہ ظلم و سفاکیت ہے کہ معاشرے میں ہر سو افرتفری، خوف و ہراس اور انتشار نظر آتا ہے ریاست ہے نہ ریاست کے اداروں کا وجود دکھائی دیتا ہے ایسے حالات میں عام آدمی کیا کرے؟ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار میں آنے سے قبل جن بنیادی مسائل کے حل کا ذکر کیا تھا ان میں مہنگائی کا طوفاں سنگین مسئلہ تھا اب انکے دور اقتدار میں مہنگائی کا یہی طوفاں ہے کہ تھم نہیں رہا یہاں تک کہ انکی گرفت سے باہر نظر آتا ہے وہ خود اپنے منشور، پروگرامز اور خطابات میں کہتے کہ اگر ترقی صفر پر چلی جائے اور کرپشن میں اضافہ ہو تو سمجھ لیں حکمراں چور اور نااہل ہیں آج معاشرہ سسک رہا ہے تو مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے؟ بہرحال وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک امید تھے مگر حالیہ مہنگائی نے لوگوں کی اس امید کو گرہن لگا دیا ہے عوام الناس حالیہ تین سالوں کے بدترین مسائل و مشکلات کے باوجود بھی توقعات رکھتے ہیں لیکن ریاست مدینہ کے فکر و فلسفے کی بات کرنے والوں کو آئی ایم ایف جیسے اداروں کی غلامی ترک کرنا ہوگی اور عالمی ایجنڈے کی تکمیل سے پیچھے جانا ہوگا ملک میں آزادنہ و خود مختارانہ اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا اور آگے بڑھنے کیلئے نہ صرف لوٹ مار اقرباء پروری کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا بلکہ موثر قوانین بنانا ہونگے تاکہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا اور ،روز گار کی فراہمی ممکن ہو، تعلیم کے میدان میں اصلاحات لانا ہونگی اور صحت کے بنیادی مسائل عام آدمی کی دسترس میں لانا ہونگے تحقیق و دریافت کے سلسلہ میں پروڈینکشن بڑھانے کے سلسلے میں اقدامات کرنا ہوںگے تاکہ روز مرہ کی ہوشرباء مہنگائی کو روکنا ممکن ہوسکے ہر جگہ ہر شہر میں مقامی سطح پر ایسے ادارے وجود میں لانا ہونگے جو مہنگائی سمیت دیگر بنیادی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں موثر اور فعال ہوں ملاوٹ مافیاز اور ذخیرہ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہوگا
اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو منہگائی کا بےقابو جن جمہوری اخلاقی، سیاسی وسماجی اور معاشی نظام کو تہہ و بالا کرتا ہوا معاشرت اور قوم کے فطری زوال سے دوچار کر دے گا
اس لئے کہ بھوک بہت سفاک ہوتی ہے اس کا تہذیب و تمدن یا اقدار و روایات اور کسی فرقے یا کسی مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کو تمدن کی سبھی جھوٹی دلیلوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے..
واضح رہے کہ
نظر بھوکی ہو تو پھر چودھویں کا چاند بھی روٹی جیسا لگتا ہے

Read Previous

منڈیوں کے قیام سے علاقائی محرومیوں کا خاتمہ اور پسماندگی دور ہوگی

Read Next

عید الاضحی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے