آبادی کا عالمی دن اور پاکستان

: مظہر چوہدری

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن11جولائی کو منایا جاتا ہے۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی موجودہ آبادی پونے آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس وقت چین اور انڈیا آبادی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں جن کی مجموعی آبادی پونے تین ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔اگرچہ اس وقت دنیا کی آبادی 1.05فیصدسالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو کہ 1963کی 2.19 فیصد سالانہ شرح (زیادہ سے زیادہ)سے نصف کم ہے لیکن آبادی کے ماہرین اسے پھر بھی خطرناک شرح قرار دے رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق 2050تک آبادی کی سالانہ شرح موجودہ سطح سے نصف سے زیادہ کم ہوکر0.5فیصد ہوجائے گی جو کہ کسی حد تک معقول شرح کہی جا سکے گی۔مذاہب اور قومیتوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اسلام اور مسلم قومیتوں میں آبادی بڑھنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آئندہ چار عشروں میں مسلم آبادی میں 73فیصد جبکہ عیسائی اور ہندو آبادی میں بلترتیب 35اور34فیصد اضافہ ہوگا۔

دنیا کی آبادی کے حوالے سے ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو نہایت دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔زرعی دور کے آغاز (8000قبل مسیح)پر دنیا کی آبادی صرف 50لاکھ تھی اور اس سے بھی حیران کن بات یہ کہ اس آبادی (50لاکھ)کو ڈبل ہونے میں پورے 8ہزار سال لگ گئے۔یوں کہہ لیں کہ عیسوی دور کے آغاز پر دنیا کی آبادی صرف ایک کروڑ تھی۔اس کے بعد دنیا کی آبادی میں قدرے تیز رفتاری سے اضافہ ہونا شروع ہوا لیکن پھر بھی اس ایک کروڑ کے ہندسے کو ایک ارب میں تبدیل ہونے کیلئے 1800سو سال لگ گئے۔صنعتی انقلاب نے آبادی میں اضافے کو تیز تر کر تے ہوئے اگلے130سالوں میں دنیا کی آبادی دوگنا(دو ارب)کر دی۔دنیا کی آبادی کو دو سے تین ارب ہونے میں 30سال لگے جبکہ تین سے چار ارب ہونے میں صرف 15سال۔70ء کی دہائی سے آبادی کی شرح میں کمی ہونا شروع ہوئی لیکن پھر بھی اگلے13سالوں (1987تک)میں آبادی ایک ارب مزید بڑھ کرپانچ ارب ہوگئی۔اگلے12سالوں میں آبادی ایک ارب مزید بڑھنے سے بیسویں صدی کے آخرتک دنیا کی آبادی چھ ارب تک پہنچ گئی۔بیسویں صدی کے دوران انسانی آبادی میں تقریباساڑھے چار ارب افراد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔بیسویں صدی کے شروع تک انسانی آبادی صرف ایک ارب پینسٹھ کروڑ تھی۔

پاکستان میں اضافہ آبادی کی تشویشناک صورتحال دنیا اور خطے کے ممالک سے موازنے سے با آسانی سمجھی جا سکتی ہے۔اگرچہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن شرح پیدائش کے لحاظ سے دنیا کے پہلے دس بڑے آبادی والے ملکوں میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔آبادی کے حوالے سے دنیا کے پہلے دس بڑے ممالک میں سے صرف نائجریا ایسا ملک ہے جس کی سالانہ شرح پیدائش ہم سے زیادہ ہے۔اسی طرح براعظم ایشیا میں صرف افغانستان واحد ملک ہے جس کی شرح پیدائش ہم سے زیادہ ہے۔ ہماری آبادی سالانہ شرح پیدائش3.6فی جوڑے کے حساب سے بڑھ رہی ہے جب کہ دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش رکھنے والا ملک نائجیریا ہے جہاں فی جوڑاشرح پیدائش 5.42ہے۔موجودہ شرح پیدائش کے حساب سے پاکستان کی آبادی 20سالوں سے بھی کم مدت میں دگنی ہو جاتی ہے۔ گذشتہ 20سالوں میں پاکستان اور نائجیریا کے علاوہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ممالک کی شرح پیدائش میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہم اپنا موازنہ صرف بنگلہ دیش سے ہی کر لیں تو صورت حال کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اکیلے مشرقی صوبے(مشرقی پاکستان) کی آبادی باقی ماندہ چار صوبوں (مغربی پاکستان) سے 60لاکھ زیادہ تھی لیکن اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان کی آبادی سے تقریبا6کروڑ کم ہے۔

آبادی اور وسائل میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ایک طرف تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات دستیاب نہیں تو دوسری طرف آبادی کے ایک بڑا حصے کو شدید قسم کی غربت، بے روزگاری، غذائی قلت، پینے کے صاٖف پانی کی عدم دستیابی، آلودگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔آج اگر ملک کی ایک تہائی کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ آبادی کی زیادتی ہی ہے۔ آج اگر پاکستان کی نصف کے قریب آبادی غذائی قلت کا شکار ہے تو اس کی وجہ بھی آبادی کی زیادتی ہی ہے۔بچوں کی تعداد میں مناسب وقفہ نہ ہونے اور بار بار کی زچگیوں کی وجہ سے پاکستان میں دوران حمل 51فیصد عورتیں غذائیت کی کمی سے خون کی کمی کا شکار رہتی ہیں۔آج اگر پاکستان میں سوا دو کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی آبادی کی زیادتی ہی ہے۔ملکی آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ہمارے ہاں آبادی میں بے تحاشا اضافے کی ایک بڑی وجہ مانع حمل طریقہ کار کا کم استعمال ہے۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا سائنسی ترقی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی ترقی سے مستفید ہو کر آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے، مسلم،بلخصوص پاکستانی قوم آج بھی مانع حمل طریقہ کار کے استعمال سے متعلق بنیادی تصورکو ہی سمجھنے میں دقت محسوس کر رہی ہے۔اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ابھی تک صرف 40 فیصد کے قریب لوگ مانع حمل طریقہ کارپر عمل پیرا ہوئے ہیں جبکہ 2020ء تک حکومت نے یہ شرح 60 فیصد تک لے جانے کا مصمم ارادہ کیا تھا۔

طبی اصطلاح میں جس طرح قبض کو ام الامراض کہاجاتا ہے، بالکل ویسے ہی آبادی کے ماہرین اوور پاپولیشن کو سو طرح کے معاشی و سماجی مسائل کی آماجگاہ قرار دیتے ہیں۔ ارباب اقتدار یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کاہی اثر ہے کہ سونا اگلنے والی ملک کی زرعی زمینوں پردھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں جس کا لازمی نتیجہ خوراک کی قلت کی صورت میں برآمد ہوگا۔ایک ایسے وقت میں جب کرہ ارض کے حال اور مستقبل پر نگاہ رکھنے والے افرادانسانوں کو دیگر سیاروں پر آباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، ہمیں اپنے سمیت ملک اور دنیا پر رحم کھاتے ہوئے آبادی کو کنٹرول کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں کہ آبادی کی زیادتی کنبے، ملک اور دنیا کے لئے برابر خطرناک ہے۔شرح آبادی پر کنٹرول کے لئے موجودہ حکومت کو فلاحی مراکزکی کارکردگی عملی طور پر بہتر بنانے سمیت کئی محاذوں پر جنگی اقدامات کی ضرورت ہے۔اگر آبادی پر کنٹرول کیلئے حکومت کو مذہبی و سماجی رہنماؤں کی مدد سے میڈیا پر تسلسل کے ساتھ مہم جاری رکھنی چاہیے۔ ادیب، دانشور اور ڈرامہ نگارآبادی کی زیادتی سے پیدا ہونے والے مسائل کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بیٹی اور بیٹے کے معاملے میں روا رکھی جانے والی تفریق کے خاتمے کیلئے تسلسل سے کوششیں کریں تو صورتحال میں خوش گوار بہتری آ سکتی ہے

Read Previous

بھارت میں سیلفی لینے کے دوران بجلی گرنے سے 11 ہلاکتیں، مجموعی تعداد 38 ہوگئی

Read Next

ترکی میں غیر قانونی تارکین وطن کی بس کو حادثہ، پاکستانیوں سمیت 12 افراد ہلاک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے